وہ سمجھتا ہے اس کنائے کو
پُل کی حاجت نہیں ہے سائے کو
میں جو کہتا ہوں کچھ نہیں ہو گا
آگ میں ڈال سب کی رائے کو
لے کے دو چسکیاں مرے کپ سے
شہد کر دے گا پھیکی چائے کو
کھل کے دیتا نہیں وہ داد کبھی
آگ لگ جائے اس کی " ہائے " کو
تجھ کو دیکھا تو خود بدل لیں گے
صائب الرائے اپنی رائے کو
میں یہاں آخری مسافر ہوں
اک نظر دیکھ لوں سرائے کو
Related posts
-
حفیظ جونپوری ۔۔۔ زمانے کا بھروسا کیا ابھی کچھ ہے ابھی کچھ ہے
زمانے کا بھروسا کیا ابھی کچھ ہے ابھی کچھ ہے یہی ہے رنگ دنیا کا، ابھی... -
میر تقی میر ۔۔۔ اپنے ہوتے تو با عتاب رہا
اپنے ہوتے تو با عتاب رہا بے دماغی سے با خطاب رہا ہو کے بے پردہ... -
مرزا غالب ۔۔۔ نقش فریادی ہے کس کی شوخیِٔ تحریر کا
نقش فریادی ہے کس کی شوخیِٔ تحریر کا کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا شوخیِ...